کوئی بھی شکل بنادیں ہمیں اجازت ہے

ہمارا مسئلہ معدوم کی وضاحت ہے

مجھے بھی ناؤ میں گننے کا شکریہ لیکن

قریب کا یہ جزیرہ برائے خلقت ہے

یہ کچے سیب چبانے میں اتنے سہل بھی نہیں

ہمارا صبر نہ کرنا بھی ایک ہمت ہے

ہیں نرخ ایک سے بازارِ حسن و حرمت کے

وہی بدن کی وہی پیرہن کی قیمت ہے

بچا نہیں کوئی مصرف کسی اجالے کا

چراغ کے لیے بے کار کی اذیت ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]