کچھ دیر کو رسوائی جذبات تو ہو گی

محفل میں سہی اُن سے ملاقات تو ہو گی

بس میں نہیں اک دستِ پذیرائی گر اُس کے

آنکھوں میں شناسائی کی سوغات تو ہو گی

سوچا بھی نہ تھا خود کو تمہیں دے نہ سکوں گا

سمجھا تھا مرے بس میں مری ذات تو ہو گی

ہر حال میں ہنسنے کا ہنر پاس تھا جن کے

وہ رونے لگے ہیں تو کوئی بات تو ہو گی

میں پوچھ ہی لوں گا کہ ملا کیا تمہیں کھوکر

اک روز کہیں خود سے مری بات تو ہو گی

اِس بازیِ مابینِ غمِ وصلت و ہجراں

جس مات سے ڈرتے ہو وہی مات تو ہو گی

اِس آس پہ دن شہر ضرورت کو دیا ہے

اُجرت میں ترے ساتھ مری رات تو ہو گی

ہو جاؤں خفا میں تو منانے کوئی آئے

اے دوستو اتنی مری اوقات تو ہو گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]