گردشِ شام اور سحر میں تو

ہر پرندے کے بال و پر میں تو

مور کے پنکھ میں تری قدرت

برق، سیلاب اور بھنور میں تو

تیری توحید کی علامت ہیں

پھول، غنچہ، کلی، ثمر میں تو

ان کی تابندگی ہے امر ترا

لعل و یاقوت میں گہر میں تو

ریگِ صحرا میں، صحنِ گلشن میں

کھیت میں، دشت میں، کھنڈر میں تو

کوئی انکار کر نہیں سکتا

مٹی، پانی، ہوا، شرر میں تو

سارا عالم ہے تیرے قبضے میں

ملک، صوبہ، نگر نگر میں تو

یہ نتیجہ ہے حسنِ فطرت کا

بس گیا ہے مری نظر میں تو

دل میں ساحلؔ کے تو ہی رہتا ہے

اس کی مغموم چشمِ تر میں تو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]