اردوئے معلیٰ

Search

گر گئی یوں مری توقیر کہ اب تو مجھ کو

دیکھتا بھی ہے جو کوئی تو نہیں دیکھتا ہے

 

شرم سے آنکھ ہر اک بار ہی جھک جاتی ہے

اور دل ہے کہ ہر اک بار وہیں دیکھتا ہے

 

جس کے پر نوچ لیے تو نے ، وہ طائر اب کے

آسماں دیکھنا چاہے تو زمیں دیکھتا ہے

 

شعر ہونے سے کہیں پہلے ہی رو پڑتا ہے

کوئی مصرعہ جو کبھی اپنے تئیں دیکھتا ہے

 

روح اب جسم سے بے زار ہوئی جاتی ہے

سخت نفرت سے مکانوں کو مکیں دیکھتا ہے

 

تو نے بازار میں عریاں مجھے کر ڈالا ہے

راہ چلتے ہوئے ہر شخص یہیں دیکھتا ہے

 

وہ سنورتا ہے مرے خون کو غازہ کر کے

اور دل ہے کہ اسے اور حسیں دیکھتا ہے

 

ان گنت جسم جنہیں دھول چٹائی میں نے

اب وہ انبوہ مجھے خاک نشیں دیکھتا ہے

 

حرف اب ہیں کہ اٹھاتے ہی نہیں سر اپنا

شعر جیسے کہ خلاؤں میں کہیں دیکھتا ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ