گر گئی یوں مری توقیر کہ اب تو مجھ کو
دیکھتا بھی ہے جو کوئی تو نہیں دیکھتا ہے
شرم سے آنکھ ہر اک بار ہی جھک جاتی ہے
اور دل ہے کہ ہر اک بار وہیں دیکھتا ہے
جس کے پر نوچ لیے تو نے ، وہ طائر اب کے
آسماں دیکھنا چاہے تو زمیں دیکھتا ہے
شعر ہونے سے کہیں پہلے ہی رو پڑتا ہے
کوئی مصرعہ جو کبھی اپنے تئیں دیکھتا ہے
روح اب جسم سے بے زار ہوئی جاتی ہے
سخت نفرت سے مکانوں کو مکیں دیکھتا ہے
تو نے بازار میں عریاں مجھے کر ڈالا ہے
راہ چلتے ہوئے ہر شخص یہیں دیکھتا ہے
وہ سنورتا ہے مرے خون کو غازہ کر کے
اور دل ہے کہ اسے اور حسیں دیکھتا ہے
ان گنت جسم جنہیں دھول چٹائی میں نے
اب وہ انبوہ مجھے خاک نشیں دیکھتا ہے
حرف اب ہیں کہ اٹھاتے ہی نہیں سر اپنا
شعر جیسے کہ خلاؤں میں کہیں دیکھتا ہے