گلاب لفظ ہیں درکار اب قلم کے لیے
سجاؤں نعت کی مالا شہِ امم کے لیے
درود ، نعت نبی اور چشمَ نم دیدہ
غلام کا ہے یہ رختِ سفر عدم کے لیے
اے کاش خاکِ مدینہ کہیں سے مل جائے
یہی ہے سرمہ ءِ اکسیر چشمِ نم کے لیے
ملی جو مُہرِ غلامی مجھے محمد کی
بروزِ حشر بہت ہے مجھے کرم کے لیے
میں پہلی سانس میں خوشبو نبی کی پا لیتا
مدینہ لکھ دیا جاتا اگر جنم کے لیے
کمال لفظِ محمد کی پائی ہے تاثیر
روا رکھا ہے اسے میں نے دل پہ دم کے لیے
ادب سے تھام کے جالی کو میں سناؤں گا
میں خاص نعت کہوں گا عطا حرم کے لیے