گِھر گِھر آئے پگلے بادل ، برسی میگھا سانوری

گائے پپیہا ، ناچے پُروا ، کُوکے کوئل بانوری

میں بِرہا کی ماری ناری سپنے دیکھوں پریت کے

کجرا رے نینوں میں دمکیں تیور گھبرو مِیت کے

!بستی بستی پیٹ ڈھنڈورا، او ری سکھی من موہنی

کرشن پیا کی دُوری سے اَدھ موئی ہے رادھا سوہنی

موہے ساجن! مانگ میں جب سیندور نہیں ترے نام کا

چھاپ، تِلک، پائل،، نتھلی، چُوڑی، کنگنا کِس کام کا

جھونکے لائی دُور سے ساجن کی مہکار کے

بھینی رُت میں ڈوب کے بُھولی میں سب دُکھ سنسار کے

کیسریا چُنری رنگوائی ، انگ بھگوئے لال میں

لال گلاب پیا کے من کو بھا جاوے ہر حال میں

شیتل جَل دو گھونٹ پلا دے ، برکھا! تیری خیر ہو

پلکیں موند کے نیند کروں تو پیا نگر کی سیر ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]