ہر ایک آنکھ میں بستے نہیں ہیں ہم لوگو

اب اس قدر بھی تو سستے نہیں ہیں ہم لوگو

کسی کو شک ہے تو رکھے وہ آستیں میں ہمیں

کہ دودھ پی کے تو ڈستے نہیں ہیں ہم لوگو

نکل پڑے ہیں ، کہیں بھی ہمیں نہیں جانا

چلو نہ ساتھ کہ رستے نہیں ہیں ہم لوگو

ہے دنیا ایک تماشہ ، کسی مداری کا

یہ اور بات کہ ہنستے نہیں ہیں ہم لوگو

کوئی تو وصف زمانے سے ہے جدا اُس میں

بلا جواز برستے نہیں ہیں ہم لوگو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]