ہر ایک آنکھ میں بستے نہیں ہیں ہم لوگو
اب اس قدر بھی تو سستے نہیں ہیں ہم لوگو
کسی کو شک ہے تو رکھے وہ آستیں میں ہمیں
کہ دودھ پی کے تو ڈستے نہیں ہیں ہم لوگو
نکل پڑے ہیں ، کہیں بھی ہمیں نہیں جانا
چلو نہ ساتھ کہ رستے نہیں ہیں ہم لوگو
ہے دنیا ایک تماشہ ، کسی مداری کا
یہ اور بات کہ ہنستے نہیں ہیں ہم لوگو
کوئی تو وصف زمانے سے ہے جدا اُس میں
بلا جواز برستے نہیں ہیں ہم لوگو