ہزار لوگوں میں دو چار بھی نہیں نکلے
مری طرف تو مرے یار بھی نہیں نکلے
ہمارے لفظوں کی حرمت کو پائمال کرو
کہ تم سے بھرتی کے اشعار بھی نہیں نکلے
وہ جن کے مشورے پر سارے پیڑ کاٹ دیے
وہ لوگ سایۂ دیوار ، بھی نہیں نکلے
انہیں یقین کسی بے یقین پر آیا
ہم ایسے لوگ اداکار بھی نہیں نکلے
تمام عمر میں بُنتا رہا جنھیں قیصر
مری کہانی ، وہ کردار بھی نہیں نکلے