ہر جگہ ہر نظر دیکھ سکتی نہیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

میرے لب پر فقط کلمۂ آفریں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

تو ہی مسجود ہے تو ہی مقصود ہے میں ہوں بندہ ترا تو ہی معبود ہے

تیری وحدانیت پر ہے سب کو یقیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

میری عاجز نظر میری قاصر زباں تیری عظمت کا کیسے کرے گی بیاں

تو نے انساں کو بخشا ہے نورِ مبیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

شکر ہر حال میں صبر ہر حال پر ہے نظر تیری دنیا کے احوال پر

حکم تیرا ہے مجھکو نہ ہو تو حزیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

تو ہی ذیشان ہے تو ہی ہے محترم خوف عصیاں سے ہے سب کی کیوں چشم نم

تیرے در پر جھکے انس و جاں کی جبیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

تو نے بخشا مجھے دولتِ علم و فن ہیں عطا کر دہ تیرے ہی یہ جان و تن

ہے رگِ جاں میں خوشدلؔ کے تو بالیقیں ، تو حیات آفریں تو حیات آفریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]