ہر سانس تیرے اذن کی محتاج ہے مری
تیری نگاہِ لطف ہی معراج ہے مری
میرے کریم مجھ پہ عنایت کی اک نظر
درپیش ہے مجھے نئے آفاق کا سفر
تیرے کرم کی شمع سے روشن ہو زندگی
یعنی حیات اصل میں ہو جائے بندگی
عرفان و آگہی کے چراغوں کی روشنی
پاتی رہے حیاتِ دو روزہ سدا مری
شعروں میں فہمِ دیں کی تجلی رہے سدا
پا جائیں میرے لکھے ہوئے لفظ بھی جلا
شہرِ رسول کی ہی ملے مستقل ہوا
دارالشفا مدینہ ہے مجھ سے مریض کا
دامن سدا حرم کے گلوں سے بھرا رہے
مجھ پر درِ کرم ہی ہمیشہ کھلا رہے
ایسے قبائے دینِ متیں اوڑھ پاؤں میں
کردارِ مصطفٰے کا نمونہ دکھاؤں میں
دنیا مرے سلوک سے خوش ہو کے کہہ اُٹھے
اخلاق ہوبہو یہی، تیرے نبی کے تھے
تبلیغ میں زباں سے نہیں، فعل سے کروں
دیں کی صداقتوں کا عمل سے ثبوت دوں
اے کاش میری فکر کا پرچم بلند ہو
اُمت ترے رسول کی بھی ارجمند ہو
مالک! ترے کرم کی ضرورت ہے اور میں
تیری نگاہِ لطف کی حاجت ہے اور میں
مالک! دلِ عزیزؔ اب اس طرح شاد ہو
پوری بجاہِ شاہِ مدینہ مراد ہو!