ہر صبح پر فضا مرے شمس الضحٰی سے ہے
اور چاند کی ضیا مرے بدر الدجی سے ہے
آیا پلٹ کے مہر، قمر چاک ہو گیا
اظہارِ حکم آپ کی ہر ہر ادا سے ہے
سارے جہاں کی رونقیں برگ و گل و چمن
اے کار گاہِ حسن تری ہی عطا سے ہے
اور آمنہ کے گھر کی طرف کعبے کا جھکاؤ
اظہارِ عجز دیکھیے ام القریٰ سے ہے
نعلینِ مشک بار سے نسبت ہوئی انہیں
اک نور ضوفشاں تبھی ثور و حرا سے ہے
نورِ خدا کے بالیقیں مظہر ہوئے نبی
مصدر نبی کے نور کا نورِ خدا سے ہے
ہوگی درونِ قبر جو ایماں کی باز پُرس
کہہ دوں گا واسطہ مرا خیر الورٰی سے ہے
منظرؔ یونہی قلم نہیں سرشار نعت سے
اذن و عطا سے ان کے ہے ماں کی دعا سے ہے