ہر طرف نور کا بہتا ہوا دریا ہو گا
جب وہاں پیشِ نظر گنبدِ خضرٰی ہو گا
شرحِ جذباتِ سیہ قلب کرینگے آنسو
دل کی دنیا میں عجب حشر سا برپا ہو گا
منزلِ دل ہے یہی اور یہ ہی ہے مقصود
یہ عطا ہو گی تو عصیاں کا مداوا ہو گا
روبرو روضۂ اقدس کے ، لبوں پر جاری
شاہِ کونین کی مدحت کا ہی نغمہ ہو گا
ٹکٹکی باندھ کے دہلیزِ کرم دیکھتا ہوں
ان کے جلوؤں کا کسی دن تو نظارا ہو گا
منظرِؔ حشر کا کچھ خوف نہ ہو گا مجھ کو
جب مرا حامی حلیمہ کا چہیتا ہو گا