ہم لوگ

تاریک پہلو

سر بریدہ نہال ہیں ہم لوگ

کس قدر بد مآل ہیں ہم لوگ

پیکرِ صد ملال ہیں ہم لوگ

خستہ دل خستہ حال ہیں ہم لوگ

فکرِ عقبیٰ سے ہم کو بے فکری

صیدِ مال و منال ہیں ہم لوگ

سیئاتِ عمل خدا کی پناہ

اب تو ضرب المثال ہیں ہم لوگ

بے عمل ہی امیدِ حور و قصور

کس قدر خوش خیال ہیں ہم لوگ

اب قریبِ غروب آ پہنچا

آفتابِ زوال ہیں ہم لوگ

اک معمہ نظرؔ سمجھنے کو

اک نشانِ سوال ہیں ہم لوگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]