ہوئی ظلم کی انتہا کملی والے

بچا کملی والے، بچا کملی والے

غریبوں کی عزت کھلونا بنی ہے

ازل سے امیروں کی گردن تنی ہے

کرن کوئی چھوٹی نہیں بے کسوں کو

جہاں روشنی ہے وہیں روشنی ہے

نئے چاند سورج اُگا کملی والے

بچا کملی والے، بچا کملی والے

یہی ایک فیصد ہیں گھیرے خدائی

اِنھیں کی بدولت ہے ہر جگ ہنسائی

ترے نام پر نفرتیں بانتٹے ہیں

دُہائی غریبوں کے رہبر دُہائی

غبار ان کے شر کا مٹا کملی والے

بچا کملی والے، بچا کملی والے

تجھی کو ہر اک زخم اپنا دکھاوؔں

کسی مقتدر کا نہ احساں اٹھاوؔں

مددگار تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا

مدد کے لیے میں تجھی کو بلاوؔں

یہی آئی دل سے صدا کملی والے

بچا کملی والے، بچا کملی والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]