ہوا نہ تارِ تنفس میں ارتعاش تلک

بچھڑ گیا ہے کوئی اس قدر خموشی سے

حیات سر کو جھکائے کھڑی ہے صحرا میں

کہ باز آ نہ سکا قیس سر فروشی سے

ملا ہے عکس سرِ آئینہ اگرچہ ابھی

ملا نہیں ہے مگر خاص گرمجوشی سے

زمینِ آتش و آہن تو پار کرنی ہے

وجود چور سہی خانماں بدوشی سے

ہزار عیب سہی مجھ میں پر خدا میرے

میں جانتا ہوں تجھے تیری عیب پوشی سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]