ہونے کو آستانِ حرم بھی قریب تھا

ہم دار تک گئے یہ ہمارا نصیب تھا

میرے ہی حسنِ شوق نے رسوا کیا مجھے

میرا جنونِ عشق ہی میرا رقیب تھا

اب تک ہے جان و دل پہ مصیبت بنی ہوئی

وہ حادثۂ زیست بھی کتنا عجیب تھا

اوروں کو بارِ غم سے سبکدوش کر گیا

وہ جس کے دوشِ عزم پہ بارِ صلیب تھا

سب کو متاعِ عیش و طرب بانٹتا گیا

ہر چند دل ہمارا نہایت غریب تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]