ہو چکے معتبر کمال مرے

تیر پہلو سے اب نکال مرے

دل تہہِ آب جا کے بیٹھ رہا

گھل گئے جھیل میں خیال مرے

یہ وہی لمحہِ جنون نہیں؟

کھا گیا تھا جو ماہ و سال مرے

کوزہ گر، نم خمیر میں ہے ابھی

نقش پھر ایک بار ڈھال مرے

دے گیا ذہن ہی جواب مرا

مطمئن ہوگئے سوال مرے

میں ، بہرحال نقشِ بد حالی

اور تو عین حسبِ حال مرے

میں اسے خود چھپا رہا ہوں مگر

خاک یوں زخم پر نہ ڈال مرے

جلد بازی میں پھینکتا کیوں ہے

سوچ کچھ اور استعمال مرے

خودکشی کارِ عیش ہے ناصر

اور کارِ جنوں محال مرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]