ہے جو روشنی کی تلاش تجھ کو دیارِ شاہِ زمن میں آ

کہ عزیزؔ شہرِ مُراد کا فقط اک یہی تو ہے راستہ

بشری حیات کے واسطے وہی لفظ شمعِ ھدیٰ بنا

جو رسولِ حق کی زبان سے سرِ بزم و رزم، ادا ہوا

یہی ایک در ہے کہ سنگ و خشت نے جس سے پائی حیاتِ نو

وہی ذرَّہ مہر بنا جو سنگِ درِ رسول سے مَس ہوا

اُسے زندگی کی نوید ربِّ کریم نے بھی سنائی ہے

جو وفات تک سرِ رزم، سچ کا پہاڑ بن کے کھڑا رہا

انہیں دے کے خلعتِ زندگی،مرے رب نے خلق کیا جہاں

اِسی اک قبا سے زمیں، زماں کا حسیں لباس بھی بن گیا

انہیں مان کر بھی انہی کے نقشِ قدم سے بُعد کی ہے روش

ہے جو قال،کیا وہی حال ہے ؟ ذرا دل سے پوچھ کے یہ بتا

بڑی مشکلوں سے بڑائی اس کی قبول کی گئی دہر میں

جو صداقتوں کی گواہی لے کے، صفا پہ محوِ کلام تھا

میں صفا کی سمت بڑھا مگر کوئی اور ہی تھی فضا وہاں

کہ تھا رنگِ رسم بھلا مگر، وہ بھی روحِ دیں سے جدا جدا

ہے عمارتوں میں تو روشنی پہ دلوں میں نور کا قحط ہے

وہ جومصطفیٰ نے ہر ایک دل کو سرِ صفا تھا عطا کیا

میں عزیزؔ نعتِ نبی میں اپنی ہی کیفیات بیاں کروں

کہ رہِ عمل تو ہے تنگ یاں، پہ درِ سخن ہے کھلا ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]