ہے داستان فقط ساتویں سمندر تک

یہ واقعہ ہے مگر آٹھویں سمندر کا

جہانِ شوق کی معلوم سرحدوں سے پرے

مہیب دھند میں ڈر آٹھویں سمندر کا

سفینے سو گئے موجوں میں بادباں اوڑھے

کھلا ہے بعد میں در آٹھویں سمندر کا

وہ سند باد جہازی ہوں جس کو ہے درپیش

قضاء کے ساتھ سفر آٹھویں سمندر کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

آج پھر سے دلِ مرحوم کو محسوس ہوا

ایک جھونکا سا کوئی تازہ ہوا کا جیسے مہرباں ہو کے جھلستے ہوئے تن پر اترا سایہِ ابر ، کہ سایہ ہو ہُما کا جیسے نرم لہجے میں مرے نام کی سرگوشی سی زیرِ لب ورد ، عقیدت سے دعا کا جیسے ہاتھ جیسے کوئی رخسار کو سہلاتا ہو دل نے محسوس کیا لمس بقا […]

حروف کیا ترے قد کی برابری کرتے

کہاں سے ہم ترے شایان شاعری کرتے تمہارا فیض نہ ہوتا تو ہم سے تن آساں محبتیں بھی جو کرتے تو سرسری کرتے بھلا ہو وہ تو تمہارا کہ پر ہی کاٹ دیے وگرنہ ہم بھی ستاروں کی ہم سری کرتے تمہارا ذکر محاسن فنون کا ٹھہرا نہیں تو کون تھے ہم کیا سخنوری کرتے