ہے گذارش میری ذاتِ کبریا کے سامنے

میں ملوں خود کو درِ صلّیِ علیٰ کے سامنے

میں جیوں تو سانس میری اُس نگر کی ہو رہین

میں مروں تو روضۂ خیرالوریٰ کے سامنے

جس نے ظلمت کو اُجالوں کی بشارت بخش دی

اِک دیا روشن رہا سرکش ہوا کے سامنے

جس کو تیرا دامنِ رحمت میسر آگیا

بے خطر آیا وہ ہر برق و بلا کے سامنے

میں پلک جھپکوں تو جا پہنچوں تری ؐسرکار میں

عرض رکھ دی ہے محمد مصطفیٰؐ کے سامنے

حشر کا مجھ کو نہیں ہے خوف کوئی مرتضیٰؔ

میں اُٹھوں گا شافعِ روزِ جزاؐ کے سامنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]