یاد آئی تو در ناب امڈ آئے ہیں
حسرت دید کے سیلاب امڈ آئے ہیں
بھیگی بھیگی ہے فضا آج جہان دل کی
آنکھ پر کرمک شب تاب امڈ آئے ہیں
کون سا ابر کرم غار حرا پر برسا
ہر طرف نور کے سیلاب امڈ آئے ہیں
شافع روز جزا ، رحمت کل، خیر کثیر
کس قدر خیر کے اسباب امڈ آئے ہیں
خواب میں دھندلی سی صورت جو نظر آئی ہے
چہرہ خواب پہ سو خواب امڈ آئے ہیں
جس جگہ خون تھا، شعلے تھے، خمر تھی ، بت تھے
اس جگہ منبر و محراب امڈ آئے ہیں
زندگی کرنے کے آداب کہاں تھے پہلے
آپ آئے ہیں تو آداب امڈ آئے ہیں
ہر شفق پر ترے خورشید نے کرنیں ڈالیں
ہر افق پر ترے مہتاب امڈ آئے ہیں
خاک پر جنت فردوس اتر آئی ہے
دشت میں گلشن شاداب امڈ آئے ہیں