یاد آئی تو در ناب امڈ آئے ہیں

حسرت دید کے سیلاب امڈ آئے ہیں

بھیگی بھیگی ہے فضا آج جہان دل کی

آنکھ پر کرمک شب تاب امڈ آئے ہیں

کون سا ابر کرم غار حرا پر برسا

ہر طرف نور کے سیلاب امڈ آئے ہیں

شافع روز جزا ، رحمت کل، خیر کثیر

کس قدر خیر کے اسباب امڈ آئے ہیں

خواب میں دھندلی سی صورت جو نظر آئی ہے

چہرہ خواب پہ سو خواب امڈ آئے ہیں

جس جگہ خون تھا، شعلے تھے، خمر تھی ، بت تھے

اس جگہ منبر و محراب امڈ آئے ہیں

زندگی کرنے کے آداب کہاں تھے پہلے

آپ آئے ہیں تو آداب امڈ آئے ہیں

ہر شفق پر ترے خورشید نے کرنیں ڈالیں

ہر افق پر ترے مہتاب امڈ آئے ہیں

خاک پر جنت فردوس اتر آئی ہے

دشت میں گلشن شاداب امڈ آئے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]