یاد آتی ہیں جو مرشد کی عنایات بہت

دل کے ویرانے میں ہو جاتی ہے برسات بہت

ہائے سورج بھی ہوا جزوِ بقیعُ الغرقد

چھوڑ کر مطلعِ عرفاں پہ نشانات بہت

اے مدینے کے شفیقؒ آپ کی یادوں کے طفیل

اب زمانے میں بیاں ہوں گی حکایات بہت

میرے مرشد کے اشارات میں انجم تھے نہاں

روشنی دیتی تھی لفظوں میں ہر اک بات بہت

شفقت ایسی کہ ہوا نام ہی اِس سے مشتق

چاہنے والوں میں رکھتے تھے مُساوات بہت

دافعِ شرک ہے، بے وہم و گماں، نسلِ عمرؓ

قاتلِ جہل تھے حضرتؒ کے خطابات بہت

ہائے وہ طرزِ بیاناتِ شفیقؒ الملت

جس میں ہوتی تھی سدا نور کی سوغات بہت

چند لمحوں کی رفاقت میں ہوا قلب اسیر

یاد آتی ہے وہ لمحوں کی ملاقات بہت

میں تو محبوس تھا الفاظ کے زندانوں میں

وسعتِ فکر کی دی آپؒ نے خیرات بہت

مانتا ہی نہیں یہ دل کہ بہت دور ہیں وہ

کی ہے اس دل کی بھی حضرت نے مُدارات بہت

میں عزیزؔ اپنی کہانی بھی سناؤں کیسے

مانعِ لفظ و بیاں ہیں مرے جذبات بہت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]