یوں بھی تو شب کدے کا دریچہ نہ وا ہوا

میں لوٹ کر جو آ نہیں پایا تو کیا ہوا

خوابوں کی سرزمین سے پھوٹا تھا میں کبھی

اور خواب دیکھتے ہوئے آخر فنا ہوا

لے تھام میری آخری سانسیں بھی اور بتا

ائے عشق تیرا قرض کہاں تک ادا ہوا

جلوہ فروز ہے وہ جھروکے میں یاد کے

میں آج بھی ہوں سر کو جھکائے کھڑا ہوا

خالی پڑی ہوئی ہے عمارت وجود کی

اک عمر سے ہوں میں کہیں باہر گیا ہوا

آنکھوں پہ جیسے ثبت ہوئی آخری جھلک

کانوں میں گونجتا ہے تمہارا کہا ہوا

وحشت کے تند و تیز تھپیڑوں پہ رقص ہے

جب سے مرا جنون مرا ناخدا ہوا

ائے برق پا حیات تجھے آ ہی لوں گا میں

دہلیز تک تو آ بھی چکا رینگتا ہوا

ناصر پسِ غبار مرے رنگ دیکھنا

اس راہ سے کبھی جو ترا لوٹنا ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]