یہی مغفرت کا بہانہ ہوا ہے
کہ طیبہ میں اپنا ٹھکانہ ہوا ہے
مری خوش نصیبی کہ حاصل جہاں میں
مجھے پنج تن کا گھرانہ ہوا ہے
زمانے نے اُس کو بٹھایا ہے سر پر
جو تیری نظر کا نشانہ ہوا ہے
ترے در کو چھوڑا ہے جس نے بھی آقا !
تو وہ بُھولا بِسرا فسانہ ہوا ہے
ہیں خوشیاں مقدر کہ یادوں سے تیری
یہ جب سے مرا دوستانہ ہوا ہے
درودوں کا حلقہ سجایا جو گھر میں
تو گھر رحمتوں کا خزانہ ہوا ہے
نہیں کوئی غم اُن کے ہوتے، اگرچہ
’’عدو اپنا سارا زمانہ ہوا ہے‘‘
وہ طائف میں اعدا کے پتھر بھی کھا کر
رویہ ترا دلبرانہ ہوا ہے
بڑے خوش مقدر کبوتر ہیں جن کا
ترا آستاں ، آشیانہ ہوا ہے
مجھے باغِ جنت میں لایا مقدر
ادا پھر یہاں پر دوگانہ ہوا ہے
شہانِ جہاں کا بھی انداز ، آ کر
درِ نور پر فدویانہ ہوا ہے
سراپا ندامت ہوں ، آقا کرم ہو
تغافل بڑا مجرمانہ ہوا ہے
جلیلِ حزیں کو بلا لیں مدینے
مدینے کو دیکھے زمانہ ہوا ہے