یہ آ گیا مجھے تیرا خیال ویسے ہی

غزل کا ہونا ہواہے کمال ویسے ہی

ہمارے حسنِ نظر کا کمال کچھ بھی نہیں ؟

تو کیا ترا ہے یہ حسن و جمال ویسے ہی؟

ترا وصال کہ جس طور میرے بس میں نہیں

ہوا ہے ہجر میں جینا محال ویسے ہی

ترا جواب مرے کام کا نہیں ہے اب

کہ میں تو بھول چکا ہوں سوال ویسے ہی

کہا یہ کس نے کہ اکتا گیا جنوں سے میں

پڑا ہوں دشت میں اب تو نڈھال ویسے ہی

اُچھالتا ہے جزیروں کو جس طرح اے بحر

مری بھی لاش کو تہہ سے اچھال ویسے ہی

نکالتاہے تو جس طور رات سے سورج

ہماری شب سے ہمیں بھی نکال ویسے ہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]