یہ بسمل خستہ دل آتش بجاں تیرا ہے یا میرا

مسلماں خاکداں میں میہماں تیرا ہے یا میرا

بجا ہے شک ترا یا رب مرے اخلاصِ طاعت پر

قصور و حور کا لیکن بیاں تیرا ہے یا میرا

علوم و آگہی میری ہے گرچہ فتنہ زا لیکن

یہ کارِ کشفِ اسرارِ جہاں تیرا ہے یا میرا

نگاہ و دل کی لغزش پر سزاوارِ سزا ہوں میں

مگر یہ فتنۂ حسنِ بتاں تیرا ہے یا میرا

ستم کش آہ کش بندے نظرؔ آتے ہیں گر تیرے

تو ہی بتلا دے مجھ کو آسماں تیرا ہے یا میرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]