یہ بلبل ، یہ تتلی ، یہ خوشبو بنا کر

ارم کی طرح دی زمیں یہ سجا کر

نشاں کچھ بتائے ہمیں یوں اجل کے

وہ نہروں کو دریا، سمندر میں لا کر

وہ اول، وہ آخر ،وہ ظاہر، وہ باطن

ازاں میں عیاں کر دیا یہ سنا کر

اگر تو ہے ظاہر تو میرے خدایا

دکھا اپنا چہرہ تو پردے ہٹا کر

بشر کی زمیں پر رسائی کہاں تھی

اتارا زمیں پر ستارا بنا کر

قیامت سے پہلے بپا حشر کر کے

ڈرا دے گا مردے زمیں سے اٹھا کر

کرم کر رہا ہے کھلا کر تُو اب تو

کبھی ڈال دے گا تو آتش جلا کر

زمیں آسماں پر ہیں جتنے ستارے

انہیں دیکھ کر دل کہے تو ثنا کر

یہ کوہ و دمن اور یہ بہتے جھرنے

عطا کر دیے ہیں ہمیں یہ سجا کر

دھنک ، آبشاریں ، پرندوں کے جُھرمٹ

انہیں دیکھنے کی نگہ بھی عطا کر

جہاں تیرگی کا تسلط ہے قائم

وہاں مصطفیٰ کی خدایا ضیا کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]