یہ حسن کائنات میں بکھرا اسی کا ہے

حیرت سے اس کو دیکھنے والا اسی کا ہے

احساس کے افق پہ چمکتا ہے اس کا چاند

جس سے میں دیکھتا ہوں دریچہ اسی کا ہے

جتنی ہیں درمیاں ہیں اسی کی نشانیاں

مکہ عطا اسی کی مدینہ اسی کا ہے

ہونے کا اس کے دیتی ہے ہر ایک شے پتہ

روشن ہر ایک سمت حوالہ اسی کا ہے

سدرہ کی وسعتوں میں اسی کے کرم کی گونج

کرسی اسی کی عرش معلی اسی کا ہے

آغوش میں طلسم کے دریا جو قید ہوں

پانی میں ماہتاب اترتا اسی کا ہے

اطراف مشک زار ہیں اس کے ہی مشک سے

ہرنوں کا جھنڈ اس کا ہے صحرا اسی کا ہے

بادِ صبا کے خامے سے قرطاسِ صبح پر

لکھے جو روشنی ، وہ قصیدہ اسی کا ہے

اس کی عطا ہیں ، خواب مرے ، آرزو مری

میرا ہر ایک حرف تمنا اسی کا ہے

رحمت کا ، رنگ زار کا ، جود و نوال کا

ہر گام پر جو نصب ہے خیمہ اسی کا ہے

آرام گاہ اس کے ہی محبوب کی تو ہے

کہہ دو مجیبؔ گنبد خضرا اسی کا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]