یہ دل سکونت خیرالانام ہو جائے
دکھوں بلاؤں کی میرے بھی شام ہو جائے
میں حسن آقا کے ہر زاوئیے پہ نعت لکھوں
مجھے جو جلوہ ماہِ تمام ہو جائے
عطا ہو طوقِ گدائی حضور مجھ کو اگر
تو دوجہانوں میں میرا بھی نام ہو جائے
وضو کریں جو سخن آبِ عشق و مستی سے
تو ان کی شان میں اعلی کلام ہو جائے
نظر ہو گنبدِ خضری پہ اور موت آئے
کہ اس طرح سے یہ لطفِ دوام ہو جائے
یہ آرزو ہے قیامت میں آپ سے یہ کہوں
حضور آپ کے ہاتھوں سے جام ہو جائے
میں چاہتا ہوں فرشتے بھی قبر میں یہ کہیں
کہ اٹھ خلیل درود و سلام ہو جائے