یہ میمِ نور سے دالِ کمال باندھنا ہے
جہانِ شعر میں کیا بے مثال باندھنا ہے
خدا سے مانگی ہیں قوسِ قزح کی سب سطریں
کہ مَیں نے نعتِ نبی کا خیال باندھنا ہے
جواب آپ نے دستِ گدا پہ رکھ چھوڑے
مَیں سوچتا رہا کیسا سوال باندھنا ہے
حروف، نعت کے منظر میں کیسے ڈھل پائیں
حروف نے تو ابھی عرضِ حال باندھنا ہے
مَیں ریزہ ریزہ بکھرتا رہا مدینہ طلب
کرم ہوا کہ سفر اب کے سال باندھنا ہے
چلا ہوں پیرِ کرم شہؒ کے آستانے پر
حجابِ قال سے اب کشفِ حال باندھنا ہے
کہو فرشتوں سے مقصودؔ اب اُتر آئیں
کہ مَیں نے نور سے نعتوں کا جال باندھنا ہے