یہ وحشتوں کی جو تاثیر میری آنکھ میں ہے

کسی سراب کی تصویر میری آنکھ میں ہے

تو اپنے خواب کو آئینہ عدو میں نہ بو

کہ تیرا خطہءِ تعبیر میری آنکھ میں ہے

ہنسا جو تجھ پہ کبھی آئینہ ، مجھے ملنا

ترے جمال کی توقیر میری آنکھ میں ہے

اسی لیے کوئی منظر مجھے نہیں بھاتا

کسی نظر کا بجھا تیر میری آنکھ میں ہے

وہ اک سخن جو کبھی تھا تمہارے ہونٹوں پر

اسی کی آج یہ تفسیر میری آنکھ میں ہے

ہے اپنا کلیہءِ تطہیر بھی خرد افزوں

اگر وہ خواب کی تاثیر میری آنکھ میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]