یہ کون مجھ کو صلِّ علیٰ یاد آ گیا

یکتائیوں کے ساتھ خدا یاد آ گیا

غربت میں جب وطن کا مزا یاد آ گیا

لوگوں کا مجھ کو بختِ رسا یاد آ گیا

دل اپنا اس کا تیرِ جفا یاد آ گیا

بیٹھے بٹھائے ہائے یہ کیا یاد آ گیا

اس رات مجھ کو نیند نہ آئی تمام رات

جس رات خوابِ زلفِ دوتا یاد آ گیا

اس دورِ اضطراب میں سب کچھ غلط مگر

اتنا ہے سچ کہ سب کو خدا یاد آ گیا

بے اختیار آنکھ سے آنسو نکل پڑے

ماضی کا حال تا بہ کجا یاد آ گیا

رکھتا نظرؔ کہیں کا نہ مجھ کو جنونِ شوق

لیکن ثباتِ اہلِ وفا یاد آ گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]