کمال اسم ترا، بے مثال اسم ترا

جہانِ حُسن میں عینِ جمال اسم ترا

عجب ہے حمد و محمد میں اشتراکِ جمیل

کرم سراپا ہے یہ میم دال اسم ترا

بکھرنے لگتا ہُوں جب بھی مَیں مثلِ برگِ خزاں

تو مجھ کو لیتا ہے پھر سے سنبھال، اسم ترا

طمانیت مرے اندر ورود کرتی ہے

گلے میں لیتا ہُوں جب بھی مَیں ڈال اسم ترا

مجھے یقیں ہے کہ آئے گی مستجاب نوید

دُعا بہ دست ہے جانِ مقال اسم ترا

دراز شب میں جو بُجھنے لگے چراغِ سخن

سخن میں لیتا ہُوں پھر میں اُجال اسم ترا

تری طرف ہی تو اُٹھتی تھی ہر نگاہِ ادب

اذاں میں لیتے تھے جب بھی بلال اسم ترا

ہمیشہ دیتا ہے مجھ کو وہ نسبتوں کا شرَف

بہت ہی رکھتا ہے میرا خیال، اسم ترا

پکارتا ہوں اُسے جب اُداس لمحوں میں

نکھار دیتا ہے روئے ملال، اسم ترا

ہر ایک عہد کے ماتھے پہ ہے جلی مرقوم

ہر ایک عہد کے سب خد و خال، اسم ترا

بجا کہ تند ہواؤں کی زد پہ ہے مقصودؔؔ

ہمیشہ رکھتا ہے اس کو بحال اسم ترا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]