کوئی دلیل مرے جرم کی ،سند ،مرے دوست؟

کہ بدگمانی کی ہوتی ہے کوئی حد مرے دوست

ابھی تلک تری الجھن نہیں سلجھ پائی

بگڑ چکے ہیں مرے دیکھ ، خال و خد مرے دوست

بھلے ڈبو دے مجھے ہجر کا چڑھا دریا

پہ مانگنی نہیں تجھ سے کوئی مدد مرے دوست

یہ آئینے میں سنورنا تجھے مبارک ہو

طلب نہیں تو بھلے خاک ہو رسد مرے دوست

زمیں سے رکھنا ہی پڑتا ہے رابطہ قیصرؔ

شجر کا اونچا ہو جتنابھی چاہے قد مرے دوست

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]