کوہ و دامان و زمین و آسماں کچھ بھی نہیں

ہاتھ دو پھیلے ہیں جن کے درمیاں کچھ بھی نہیں

حسرت و وحشت میں آتش ہو گئی بے چارگی

راکھ ہے باقی جہاں دل تھا وہاں کچھ بھی نہیں

خاک کا جب لمس پیشانی پہ اُترا تو کھلا

خاک سب کچھ ہے جبین و آستاں کچھ بھی نہیں

طاق میں اب گرد ہے یا صرف کالک کا نشاں

کوئی مشعل ، کوئی شعلہ یا دھواں کچھ بھی نہیں

اب فقط آزردگی باقی ہے دشتِ یاس میں

سارباں ، محمل ، غبار ِ کارواں کچھ بھی نہیں

دل، کہ بے حس بھی ہوا ، حساس بھی، سو اس پہ اب

کارگر کچھ بھی نہیں ہے ، رائیگاں کچھ بھی نہیں

در کھلا ہے ایک مدت سے مگر دہلیز پر

ما سوائے حسرتِ گریہ کناں کچھ بھی نہیں

پیس ڈالا ہے وجودِ شوق کو جس بوجھ نے

کوئی زندہ ہو تو یہ بارِ گراں کچھ بھی نہیں

خون میں لتھڑا بدن یا روحِ گرد آلود ہو

اب تمہارے لمس کے لائق یہاں کچھ بھی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]