کچھ دیر کو رسوائی جذبات تو ہو گی
محفل میں سہی اُن سے ملاقات تو ہو گی
بس میں نہیں اک دستِ پذیرائی گر اُس کے
آنکھوں میں شناسائی کی سوغات تو ہو گی
سوچا بھی نہ تھا خود کو تمہیں دے نہ سکوں گا
سمجھا تھا مرے بس میں مری ذات تو ہو گی
ہر حال میں ہنسنے کا ہنر پاس تھا جن کے
وہ رونے لگے ہیں تو کوئی بات تو ہو گی
میں پوچھ ہی لوں گا کہ ملا کیا تمہیں کھوکر
اک روز کہیں خود سے مری بات تو ہو گی
اِس بازیِ مابینِ غمِ وصلت و ہجراں
جس مات سے ڈرتے ہو وہی مات تو ہو گی
اِس آس پہ دن شہر ضرورت کو دیا ہے
اُجرت میں ترے ساتھ مری رات تو ہو گی
ہو جاؤں خفا میں تو منانے کوئی آئے
اے دوستو اتنی مری اوقات تو ہو گی