کہاں سے سیکھ کے آئی ہو تم اداکاری

تمھیں تو آتی نہیں تھی کوئی بھی فنکاری

مریضِ عشق کا احوال پوچھنے والو

ہٹو تمیں کہاں آتی ہے ہم سی دل داری

کہاں طریقہ تھا کچھ ہم میں بات کرنے کا

محبتوں نے سکھائی ہمیں وضع داری

کچھ اپنے فیصلوں پر ہم بھی غور کرتے ہیں

دکھاؤ تم بھی کہیں پر ذرا سمجھداری

ہمارے جیسے کئی سادہ دل جہاں بیٹھے

وہاں پہ دیکھنے والی تھی اس کی ہشیاری

کرے گا میری محبت کا اعتراف اک دن

اسی گمان میں گزری ہے زندگی ساری

بیاں وہ کر نے چلا اپنے دل کی کیفیت

مگر یہ ضرب ہمیں پڑ رہی تھی یوں کاری

دھمال ڈال قلندر کی اک صدا پر عشق

چمک رہی ہے ترے نام کی دکاں داری

تمام زخموں کے ٹانکے ادھڑ گئے مرے دوست

یہ رات گزری ہے اس دل پہ کس قدر بھاری

جنونِ عشق ہواؤں میں لے اڑا لیکن

فضائے دل پہ رہا کوئی خوف بھی طاری

زبیر کون سی خواہش کا قتل ہو گیا تھا

کہ دل میں تھمتی نہیں ایک پل عزاداری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]