کہاں سے لاؤں وہ حرف و بیاں نمی دانم

حضور آپ کے شایانِ شاں، نمی دانم

کسے سناؤں، کہوں کس سے اپنا قصۂ غم

بجز حضور کوئی مہرباں نمی دانم

عطائیں رہتی ہیں مجھ جیسے بے ہنر پہ مدام

یہ کیسا ربط سا ہے درمیاں، نمی دانم

بس ایک نام ہے وجہِ اُمنگ، روح کے سنگ

گدائے حرف ہُوں، سود و زیاں نمی دانم

زبانِ عجز پہ لایا ہُوں اِک ثنائے شوق

سوائے اس کے کوئی ارمغاں نمی دانم

فقط مدینے میں پائی ہے بُوئے خلدِ بریں

ہے اس کے بعد کہیں بھی جناں، نمی دانم

ہمیشہ موسمِ گُل ہے ثنا گروں کا نصیب

گرفتِ عرصۂ شامِ خزاں نمی دانم

درود پڑھتے ہیں بے شک شجر، حجر ہر دم

مَیں ان کی شوق میں ڈوبی زباں نمی دانم

سجا کے رکھا ہے آنکھوں میں نقشِ نعلِ نبی

فلک پہ جو ہے سجی کہکشاں نمی دانم

وہ اِک سفر تھا زمان و مکاں کی حد سے ورا

لقا کی بزم پسِ لا مکاں نمی دانم

سپردِ حیرت و حسرت ہُوں دیر سے مقصودؔؔ

جہانِ معنیٔ قُربِ کماں نمی دانم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]