کیا مرگ و نیستی ہے تو کیا بود و ہست ہیں

یہ فاصلے جنوں کے لیے ایک جست ہیں

ہم پر کوئی بھی مان کوئی بھی یقین کیا

ہم لوگ عشق پیشہ و وحشت پرست ہیں

سر ہو چکیں تو علم ہوا ہم کو صاحبو

یہ چوٹیاں بھی کرب کی قامت سے پست ہیں

ہم کو ترے وجود سے کیا چاہیے کہ ہم

اپنی فنا کے کھیل تماشے میں مست ہیں

تیرے سوا بھی لاکھ تماشے جنوں کے ہیں

یعنی قضا کے اور کئی بند و بست ہیں

سوداگرانِ عشق کے جمِ غفیر میں

اپنی وہی بساط کہ کاسہ بدست ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]