گذشتہ رات یادِ شاہ دل میں سو بسو رہی

زمینِ قلب دیر تک جلیسِ رنگ و بو رہی

اذاں میں جس کا تذکرہ سنا تھا ماں کی گود میں

مرے قلم کی نوک پر اسی کی گفتگو رہی

کفِ طلب میں بے قرار تھیں مری عقیدتیں

جبینِ دل کو سنگِ در پہ خم کی آرزو رہی

صبا نے چوم لی ہے تیرے بام و در کی روشنی

اسی لئے تو کشتِ گل میں باعثِ نمو رہی

جبینِ ناز پر نجومِ عرق ضوفشاں ہوئے

جوارِ شہرِ نور کی ہوا بھی مشکبو رہی

درونِ دل خیال معتکف رہا حضور کا

اگرچہ میرے لب پہ رونقِ صدائے ہُو، رہی

زمین کی نظر کو بھا گئی ہے رفعتِ فلک

عجم کی مشتِ خاک کو عرب کی جستجو رہی

کیا ہے جب بھی دھڑکنوں نے ورد تیرے نام کا

رگِ حیات میں رواں کرم کی آب جو رہی

بدن کو راہِ زیست پر گھسیٹتے رہے مگر

ہماری روح سنگِ آستاں کے روبرو رہی

جہاں بھی ذکرِ اہلِ بیتِ مصطفیٰ کیا گیا

فراتِ غم میں آنسوؤں سے آنکھ باوضو رہی

درودِ پاک جب تلک پڑھا گیا حضور پر

ملائکہ کی فوج میرے گھر میں چار سو رہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]