گماں امکان کی تاویل ہونے پر نہیں آتا

یہ سنگِ راہ ، سنگِ میل ہونے پر نہیں آتا

گھلائے جا رہی ہے وقت کے تیزاب کی بارش

تمہارا نقشِ پاء تحلیل ہونے پر نہیں آتا

بگڑ جاتے تو ہم کوئی نیا بہروپ بھر لیتے

مگر یہ دل کہ جو تبدیل ہونے پر نہیں آتا

بکھرتے جا رہے ہیں ہاتھ سے ذرات الفت کے

گھروندہ ریت کا تکمیل ہونے پر نہیں آتا

رکی ہے سانس جیسے عمر سے بس ایک ہی پل میں

مگر اک حادثہ تکمیل ہونے پر نہیں آتا

چراغِ دل جلا لینے کی لذت اور ہی شئے ہے

مگر یہ فن فقط قندیل ہونے پر نہیں آتا

ہمارے منحرف کی قامت و قد پر نظر کیجے

ہمیں غصہ فقط تذلیل ہونے پر نہیں آتا

تصور کو بیاں کیسے کریں الفاظ میں ناصر

یہ وہ منظر ہے جو تمثیل ہونے پر نہیں آتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]