ہجر کا رنج گھٹے ، ایسی دعا جانتا ہے ؟

تو کوئی ورد ، کوئی اسم ، بتا جانتا ہے

بس قیافوں پہ مجھے چھوڑ کے جانے والے

یہ ترا شہر مرے بارے میں کیا جانتا ہے ؟

مشورے دیتے ہوؤں کو بھی کہاں ہے معلوم

اتنا معصوم نہیں ، اچھا برا جانتا ہے

تو نے کیا سوچ کے مضمون چرایا میرا

دین اسلام میں چوری کی سزا جانتا ہے ؟

لوگ اس شخص کی مٹھی میں چلے آتے ہیں

وہ کَلاکار کوئی ایسی کَلا جانتا ہے

اب جنوں دشت کی ویرانی کے کام آئے گا

ہم کبھی شہر کی رونق تھے خدا جانتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]