ہزار لوگوں میں دو چار بھی نہیں نکلے

مری طرف تو مرے یار بھی نہیں نکلے

ہمارے لفظوں کی حرمت کو پائمال کرو

کہ تم سے بھرتی کے اشعار بھی نہیں نکلے

وہ جن کے مشورے پر سارے پیڑ کاٹ دیے

وہ لوگ سایۂ دیوار ، بھی نہیں نکلے

انہیں یقین کسی بے یقین پر آیا

ہم ایسے لوگ اداکار بھی نہیں نکلے

تمام عمر میں بُنتا رہا جنھیں قیصر

مری کہانی ، وہ کردار بھی نہیں نکلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]