ہماری آنکھیں الگ تھیں ، ہمارے خواب الگ

اسی لیے ہمیں سہنے پڑے عذاب الگ

یہ لوگ سوچے بنا زندگی گزار گئے

ہمیں تو فکر کا دینا پڑا حساب الگ

تُو یار ہے، تجھے دوں گا رعایتی نمبر

مرا سوال الگ تھا، ترا جواب الگ

یہ شاہ زادے غلامی کا پڑھ رہے ہیں سبق

الگ ہیں شہر کے اسکول اور نصاب الگ

چھپا رہا ہوں میں چہرے کو تیری دہشت سے

ترا نقاب الگ ہے ، مرا نقاب الگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]