ہو لیلائے جاں کا جو محمل حضوری

ہمیشہ رہے دل کو حاصل حضوری

عطا ہو کبھی حاضری کا وہ لمحہ

کرے میرے دل کو بھی بسمل حضوری

رہا کلبِ دنیا پراگندہ خاطر

ہوئی حاضری میں بھی مشکل حضوری

شریعت کا سرمایہ، طیبہ نصیبی

حقیقت کا جوہر ہے کامل حضوری

مکاں سے مکیں تک رسائی ہے ممکن

بنے زائروں کی جو منزل حضوری

مُیسر ہو دیدارِ آقا مسلسل

بنا دے مجھے اس کے قابل حضوری

مری تشنگی کا مقدر بھی جاگے

دکھا دے کبھی اُن کی محفل حضوری

سوالِ کرم جس کا رد ہو نہ کوئی

بنا دے مجھے ایسا سائل حضوری

ڈھلے زندگی اُسوۂ شاہِ دیں میں

نہ ہونے دے اِک لمحہ غافل حضوری

نظر بھر کے جو اُمِ معبد نے دیکھے

دکھا دے مجھے وہ شمائل حضوری

سفر بحرِ دنیا کا آخر ہو ایسے

بنے کشتیِ جاں کا ساحل حضوری

گنہگار پہنچے شفیعِ اُمم تک

کرا دے سبھی طے مراحل حضوری

جو گھبرائے دل ہجرِ طیبہ میں میرا

سکینت کرے مجھ پہ نازل حضوری

قناعت نہ کر حاضری پر ہی احسنؔ

بنا قلبِ مضطر کی منزل حضوری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]