ہیں جاں نثار ہم جو رسالت پناہ ﷺ کے
کیوں نقش مٹتے جاتے ہیں دیں سے نباہ کے؟
اُمت کو جو اُخوۃِ باہم سکھائی تھی
سب مٹ چکے نشان بھی اُس رسم و راہ کے
ایسے فدائی کیسے نظر آئیں دہر میں؟
اپنائیں رنگ ڈھنگ جو حق کی سپاہ کے
ہر وصف چھن گیا ہے مسلماں سے خیر کا
کیسے کرے گِلے بھی یہ حالِ تباہ کے
شیطاں کی رہبری ہو جو میدانِ جنگ میں
پھر کیا قدم جمیں کہیں حق کی سپاہ کے
چھوٹے بڑے سبھی ہوئے گمراہ شہر میں
اپنا کے سب اصول ’’لعیں سربراہ‘‘ کے
آقا ﷺ! بڑی اُمید سے تکتے ہیں سوئے در
ہم منتظر ہیں ایک، فقط اک نگاہ کے
اہلِ ورع کے چہروں پہ اِس تیرہ شب میں بھی
انوار ہیں رسولِ گرامی ﷺ کی چاہ کے
شاید کہ عاصیوں کو مُیسر ہو حشر میں
یہ خواب دیکھتے ہیں نبی ﷺ کی پناہ کے
ہے ساتھ داغِ بے عملی پھر بھی ہے اُمید
کچھ فائدے تو ہوں گے ہمیں اشک و آہ کے
منظر یہ دیکھنا بھی مقدر میں تھا عزیزؔ
گُل ہیں چراغ، حق و صداقت کی راہ کے