یہ بارگہِ حضرت نواب علی ہے

اس در کا جو منگتا ہے وہ شاہوں سے غنی ہے

اعزاز ہے حاصل تجھے اولاد نبی کا

عظمت کی نشانی یہی اعلیٰ نسبی ہے

مل جائے گا سب کچھ ذرا دامن کو پسارو

کس چیز کی ان کے در دولت پہ کمی ہے

امواجِ بہارِ درِ نواب کے صدقے

ہر شاخ تمنا مری پھولوں سے بھری ہے

کہتے ہیں اسے حضرت نواب کی چوکھٹ

سلطاں بھی جہاں مائل دریوزہ گری ہے

فریاد جو تجھ سے نہ کروں، کس سے کروں میں

مشہورِ زمانہ تری فریاد رسی ہے

مجھ میں تو ہنر ہی نہیں کچھ جس پہ کروں ناز

یہ تیرا کرم ہے جو مری بات بنی ہے

دم ٹوٹ رہا ہے مرا ، بے ربط ہیں سانسیں

آجاؤ خدارا بڑی نازک یہ گھڑی ہے

نکہت بھری ہر سمت سے آتی ہیں ہوائیں

کوچہ ہے تمہارا کہ یہ جنت کی گلی ہے

تاریخ شہیدان وفا جس سے ہے روشن

وہ رسم محبت ترے کوچے سے چلی ہے

جب خاک ترے در کی ہوئی ہے مری مٹی

تب جاکے کہیں نازش اکسیر ہوئی ہے

قدموں میں ہی رہنے دے کہ دیوانہ ہوں تیرا

دنیا بھی یہی ہے مری عقبیٰ بھی یہی ہے

اے نورؔ مبارک تجھے اس در کی غلامی

یہ دولت کونین ہے جو تجھ کو ملی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]