یہ بہاروں میں چمن کی داستاں ہو جائیگا

یہ بہاروں میں چمن کی داستاں ہو جائے گا

غنچہ معصوم کانٹوں میں جواں ہو جائے گا

خار میری حسرتوں کے آپ کے جلووں کے پھول

یہ بہم ہو جائیں تو ,اک گلستاں ہو جائے گا

آپ بھی روشن رکھیں اپنی محبت کے چراغ

یہ دیئے گل ہو گئے تو پھر دھواں ہو جائے گا

مثبت و منفی اشاروں سے ترا پہلا پیام

بے تکلمّ ہی نوشتِ داستاں ہو جائے گا

اجنبی سے اس لیے دامن بچاتا ہوں ضیاؔء

آشنا ہونے سے پہلے رازداں ہو جائے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]