آرزو موجزن ہے نس نس میں

اور کچھ بھی نہیں مرے بس میں

ضبط میں پھول پھل رہا ہے جنوں

تم نے شعلہ دبا دیا خس میں

میں نبھانے چلا تھا رسموں کو

میں نبھاتا ہی رہ گیا رسمیں

کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں مجھے

میں نے کھائی تھیں جس قدر قسمیں

تم بھی حق دار ہو برابر کے

بانٹ لیتے ہیں زخم آپس میں

سانس رک رک کے آرہی ہے مجھے

کوئی جھونکا ہی بھیج محبس میں

سر جھکائے کھڑا ہوا ہے جنوں

عقل کی بارگاہ اقدس میں

اب مرا ذائقہ بھی آتا ہے

تیرے ہونٹوں کے جادوئی رس میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]