آقا حصارِ کرب سے ہم کو نکال دیں

آقا یہ عہدِ تیرہ شبی ہم سے ٹال دیں

آقا ہمارے قلب میں دیں کی تڑپ نہیں

ویران سی حیات کو حسن و جمال دیں

آقا ہماری سوچ ہے ذاتی مفاد تک

تاریکیِ خیال ہماری اُجال دیں

آقا حضور سہمی ہوئی ہے یہ زندگی

اس کو بھی آپ عزت و رحمت کی شال دیں

آقا ہمیں ہے تیشہِ ہمت خریدنا

بہرِ کرم عطاؤں کے سِکّے اُچھال دیں

آقا صراطِ جرأت و غیرت کے در کھلیں

پھر سے وہ رعب و دبدبہ جاہ و جلال دیں

آقا جُدا کیا ہمیں باطل کی چال نے

اُمت کو اتحاد کا اوج و کمال دیں

آقا ہماری موت ہے فتنوں کی دلکشی

اِن حاکمانِ وقت کو حکمت کی ڈھال دیں

آقا سبھی ہیں ملک کے کردار کاغذی

طرزِ صحابہؓ کی یہاں کس کو مثال دیں

آقا یہ عدل مسندیں گر دے سکیں نہ عدل

اتنا تو ہو غریب کو اذنِ سوال دیں

آقا ہمیں بھی طاعتِ صدیقؓ ہو عطا

اور حیدریؓ کمال بھی صدقہِ آل دیں

آقا نظر ملانے کے قابل نہیں ہوں میں

نظرِ کرم شکیلؔ کے کاسے پہ ڈال دیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]